Subscribe Us

koi chaand rkh meri shaam pr__Episode # 1_____کوئی چاند رکھ میری شام پر __قسط # ١



 توقع کے عین مطابق پہلا انعام حنا کو ہی ملا وہ بہت خوش تھی اور پھولی نہیں 

سما رہی تھی. یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا. یہ سب اس کی خواہشوں میں 

سے تو نہیں تھا مگر وہ بڑی جذباتی سی لڑکی تھی. اپنی ہر خوشی کو اپنوں کے 

ساتھ بانٹ کر اسے سکوں ملتا تھا. اسی لئے انعام لینے کے بعد اپنے گاؤں کی سکھی 

سہیلیاں ، اپنی بہن زینب ، اس کا شوہر ادا نور محمد اور اپنی بہن کی تینوں بیٹیاں 

اجالا ، روشنی اور کرن شدت سے یاد آ رہی تھیں. یہ چھوٹا سا تحفہ جو حنا کو 

.ملا تھا وہ ان سب کیلئے کتنا بڑا ہو گا. یہ سب صرف حنا کا دل جانتا تھا 

حنا نے میٹرک اپنی حسین وادی کشمیر کے قریب آباد ایک شہر سے کیا تھا جب 

کہ کالج کی تعلیم کیلئے وہ بڑے شہر کے ایک کالج میں زیر تعلیم تھی ، اپنوں اور 

گاؤں سے دور رہ کر حنا میں بہت تبدیلی آ گئی تھی جب کہ شہر کی تعلیم نے اس 

کا دیہاتی بہت پہلے ہی ختم کر دیا تھا. اب وہ گاؤں کی لڑکی سے زیادہ شہر کی رکھ 

.رکھاؤ والی اور مہذب لڑکی دکھائی دیتی تھی

حنا جو کشمیر کی حسین وادی کی طرح حسین و جمیل تھی اس کی برف جیسی 

سفید رنگت اناروں کی طرح کھلتے ہوئے ہونٹ اور گال اسے اپنے کالج میں دوسری 

تمام لڑکیوں سے ممتاز کر دیتے تھے، لوگ یہ ضرور پوچھتے تھے کہ اس کا تعلق 

کس علاقے سے ہے اور کشمیر کا نام سن کر سبھی مسکرانے پر مجبور ہو جاتے 

تھے کیوں کہ وہ لگتی بھی کسی ایسی ہی حسین وادی کی پیداوار تھی، اس کے سیاہ 

گھٹاؤں کو شرماتے بال اور گہری کالی رات جیسی سیاہ آنکھیں سبھی کو اپنی طرف 

متوجہ کر لیتی تھیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک زندہ دل اور ہر دم مسکرانے 

والی لڑکی تھی وہ خاموش بھی ہوتی تو انوکھی سی ہنسی اس کے چہرے پر رقص 

کرتی رہتی تھی اس کا معصوم چہرہ دنیا کے ہر غم اور ہر دکھ سے آزاد تھا وہ اپنی 

.ہی دنیا میں مست رہنے والی ایک لڑکی تھی 

ایسا نہیں تھا کہ حنا صرف حسین تھی وہ حسن پسند بھی تھی دنیا میں اپنی آنکھوں 

سے ہر دم حسن کی پرچھائیاں تلاش کرتی رہتی تھی حسین چہرے اور حسن فطرت 

اسے بہت متاثر کرتے تھے ایسا شاید اس لئے بھی تھا کہ اس کی آنکھ اس حسین 

وادی میں کھلی تھی. اس کا دل ایسی چیزوں کا ہمیشہ سے دیوانہ تھا جنھیں دیکھ کر 

.ایک پل کو انسان پلکیں جھپکنا بھول جائے 

حنا کی ایک ہی بہن تھی جس کا نام زینب تھا اور حنا اسے "ادی " کہ کر 

پکارتی تھی. یہ زینب کی ہی خواہش تھی کہ حنا تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو 

اور اس کی اسی خواہش کے حصول کیلئے ہی حنا کالج میں تعلیم حاصل کر رہی 

تھی. آج ان کے کالج میں ایک فیشن شو ہو رہا تھا حنا چونکہ اس کالج کی حسین 

ترین لڑکیوں میں شمار ہوتی تھی اس لئے اپنی دوستوں کے کہنے پر اس نے اس شو 

میں حصہ لیا تھا لباس وہ اپنے وطن سے لائی تھی، نیلا رنگ حنا کا پسندیدہ رنگ 

تھا، کیوں کہ کشمیر کے جھرنوں اور جھیلوں کا رنگ ایسا ہی نیلا تھا، کشمیر پر 

جس آسمان نے قنات تان رکھی تھی وہ بھی ایسا ہی نیلا تھا ایسا حسین جو اس شہر 

میں آ کر گدلا اور مانند پڑ جاتا تھا ایسے گہرے کھلتے ہوئے نیلے رنگ کی بے 

شمار گھیر والی پٹھانی فراک جس پر اس کی ادی زینب نے پورے سال بھر کی 

محنت کے بعد سنہری تاروں سے حسین کڑھائی کی تھی، زیب تن کیے اور بڑے 

سے دوپٹے کو خود پر لپیٹے جب وہ اسٹیج تو حال زبردست تالیوں سے گونج اٹھا 

حسین نیلے رنگ پر حسین کڑھائی اور حنا کے حسن نے اس لباس اور وقت کو 

ایسا نا قابل فراموش بنا دیا کہ بہت در تک تالیاں بجتی رہیں حنا کا چہرہ اس 

بیشمار روشنیوں میں اس قدر چمک رہا تھا کہ کسی کی نظر اس کے چہرے پر ٹھہر 

.نہ سکی چاروں طرف سے کیمرے کے فلیش پڑ رہے تھے 

رات کے وقت اپنے ہاسٹل کے کمرے میں اپنے بستر پر لیٹی وہ کھلی ہوئی کھڑکی 

سے باہر جگمگ کرتے آسمان کو دیکھ رہی تھی. اس رات میں کتنا حسن تھا ستارے 

اس کی سنگت میں تھے، اتنا حسین چاند اس کے سنگ سنگ تھا آخر آسمان کو کیا غم 

تھا جو وہ ماتم کے رنگ میں نہایا ہوا تھا. شاید کہ دن سے بچھڑنے کا غم ہو گا 

حنا سوچ میں گم تھی کہ دوسرے بیڈ گہری نیند سوئی ہوئی اس کی روم میٹ اور 

دوست صدف کسمسا کر اٹھی. اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی پھر حنا کو دیکھا جو 

.بڑے انہماک سے آسمان کو تک رہی تھی  

اے بی بی" صدف نے میز پر انگلی سے کھٹ کھٹ کرتے ہوئے کہا" 

"حنا نے چونک کر اسے دیکھا اور بولی "کیا ہوا اٹھ کیوں گئی ؟

رات کے دو بجے اگر اس طرح کھڑکی سے اس طرح چھنتی ہوئی روشنی اور "

ٹھنڈی ہوا کمرے میں آرہی ہو تو مجھ جیسے بیوقوف اکثر اٹھ ہی جایا کرتے ہیں. 

.لیکن آپ کو تارے گننے کا مرض کیوں لاحق ہو گیا ؟" وہ اٹھتی ہوئی بولی 

نہیں تو تارے کہاں!" وہ لیٹے لیٹے مسکرائی اس کھڑکی سے پورا آسمان کہاں نظر "

آتا ہے حنا تکیہ گود میں رکھ کر اٹھ بیٹھی "یہ تو ایک الگ بحث ہے لیکن تم اتنی 

.رات کو کیوں جاگ رہی ہو؟" صدف پھر گھڑی دیکھتی ہوئی بولی 

اس لئے کہ چاند جاگ رہا ہے میرے کشمیر میں میری ادی کے آنگن میں بھی یہی "

چاند جھانک رہا ہو گا." وہ ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے دلکش لہجے میں 

بولی. "اف خدا! تم دونوں بہنوں کی رومیو جولیٹ والی محبت کیا اس رات میں بھی 

.ڈسکس ہو گی." صدف مکمل طور پر جاگ گئی تھی اس لئے مسکرا کر بولی 

یہ محبت تو قیامت کے دن بھی ڈسکس ہو گی مائی ڈیئر" حنا نے مسکرا کر جواب "

دیا. "اچھا! ارے ہاں یاد آیا حنا آج جو سوٹ تم نے شو میں پہنا تھا وہ غضب کا تھا 

".تمہاری ادی تو زبردست کاریگر لگتی ہیں 

.ہاں وہ تو وہ ہیں." حنا فخر کے انداز میں مسکرا کر بولی" 

.اور تم؟" صدف نے سوال کیا" 

میں تو بس تھوڑا بہت بنا لیتی ہوں، دراصل بچپن میں گڈے گڑیا کے کھیل کے ساتھ ساتھ کڑھائی سلائی بھی ہمارے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے. عمر جوں جوں بڑھتی ہے رنگ اور دھاگے بھی بھڑتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میں سلائی بھی آ جاتی ہے مگر ادی زینب جیسا تو میں سالوں کی محنت کے بعد بھی نہیں سیکھ سکتی وہ تو اپنی ایک ایک سوئی میں ایک ایک ٹانکے میں میرے لئے سو سو دعائیں کاڑھتی ہیں حنا محبت پاش لہجے میں بول رہی تھی 
کیا کوئی ایسا سوٹ مجھے بنوا کر دے سکتی ہو جس کے ایک ایک ٹانکے میں سو  سو دعائیں بندھی ہوں؟ صدف دلچسپی سے بولی "کیوں نہیں صدف، مگر آج کل ادی کی طبیعت اچھی نہیں رہتی جب میں پچھلے دنوں گئی تھی تو اسے بخار بھی تھا اور شدید کھانسی بھی. میں وہاں دو دن رہی تھی. مگر اس کی طبیعت نہیں سنبھلی، مجھے تو فکر لگ گئی، گاؤں کے بڑے حکیم سے دوائی بھی لائی تھی مگر افاقہ نہیں ہوا، امتحان سے پہلے جاؤں گی تو یہاں کے ہسپتال سے دوائی لے جاؤں گی حنا کے لہجے میں بولتے بولتے بے شمار فکریں عود آئیں. " " اوہو، موسم کی تبدیلی بھی تو عموماََ کھانسی بخار لے آتی ہیں، تم فکر نہ کرو وہ ٹھیک ہو گئی ہوں گی." صدف نے تسلی دی." اللہ کرے " حنا کے دل سے دعا نکلی. "حنا آخر کتنا بڑا ہے تمہارا گاؤں تمہارا کشمیر. " صدف نے تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا، اس کی نیند تو رفو چکر ہو چکی تھی اسی لئے اسے باتوں میں لطف آ رہا تھا. سو اس نے اپنا پسندیدہ ٹاپک چھیڑ دیا، کشمیر کے بارے میں وہ ہمیشہ سے بہت کچھ جاننا چاہتی تھی جہاں سے اس قدر حسین حنا آئ تھی کیا اس کا گاؤں بھی اتنا ہی حسین تھا ؟
بہت بڑا ہے بے تحاشا وسیع وہاں کی کھلتی ہوا میں سانس لینے سے ہی وہاں کی وسعت کا اندازہ ہو جاتا ہے سراپا جنت ہے، جنت نہیں تو جنت سے کم بھی نہیں ہے. نیلے آسمان سے باتیں کرتے نیلے گہرے جھرنے اونچے اونچے لا محدود وسعت کے پہاڑی سلسلے اور ان گنت اور بے شمار درخت لامحدود سبزہ ہریالی کھلکھلاتی ہوئی اجلی فضا، تمہارا یہ شہر تو کشمیر کے آگے بلکل پھیکا ہے، ایک پیسے کا بھی نہیں " ،حنا سوچتے ہوئے بونے لگی کشمیر کے ذکر پر اس کے چہرے پر بے شمار رنگ پھیل گئے 







Post a Comment

0 Comments