Subscribe Us

کچھوا اور خرگوش__کی کہانی تو پڑھی ہو گی یہ بھی پڑھئیے|Writer Dilfaraz| edge zaroo | The Hare and the Tortoise| Urdu Story

Short Stories

کچھوا اور خرگوش__کی کہانی تو پڑھی ہو گی یہ بھی پڑھئیے|Writer Dilfaraz| edge zaroo | The Hare and the Tortoise| Urdu Story



ہر کسی کو بچپن کی سنی ہوئی کچھوے اور خرگوش کی کہانی تو ضرور یاد ہو گی۔ اس کہانی کے مطابق کچھوے اور خرگوش میں دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے. دوڑ کے آغاز میں جب کچھوا بلکل ابتدا ہی میں ہوتا ہے, خرگوش اپنی تیز رفتاری کی بنا پر بہت آگے نکل جاتا ہے مگر ہدف پر پہنچنے سے قبل خرگوش کو خیال آتا ہے کہ کچھوا تو ابھی بہت پیچھے ہے. اس لئے اسے کچھ دیر درخت کے سائے میں لیٹ کر سستا لینا چاہیے.

 لہذا وہ آرام کرنے لیٹتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے. کچھوا بغیر رکے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سوۓ ہوئے خرگوش سے آگے نکل جاتا ہے اور پھر ہدف تک پہنچ جاتا ہے. جب خرگوش کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ دوڑ کر ہدف تک پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کچھوا وہاں پہلے سے موجود.ہے. اس طرح خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باوجود ریس ہار جاتا ہے خرگوش کی طرح انسان کو کبھی غیر ضروری طور پر خود اعتمادی کا شکار نہیں ہونا چاھئیے, نہ کسی کی صلاحیت کو کم تر سمجھ کر عمل سے رکنا چاھئیے. اس کہانی میں ہے کہ مستقل مزاجی اور ہمت ایک بہت بڑا وصف ہے جس کا مظاہرہ کچھوے نے کیا.

 اس کہانی کی مزید تفصیلات بھی ہیں جو کم لوگوں کو ہی معلوم ہیں. ان کی تفصیل اس طرح ہے کہ دوڑ ہارنے کے بعد خرگوش دوبارہ مقابلہ رکھتا ہے اور اس دفعہ بغیر رکے دوڑتا چلا جاتا ہے. چناں چہ وہ ایک بڑے فرق سے کچھوے کو شکست دے دیتا ہے. انسان میںاعلی صلاحیت کے ساتھ اگر مستقل مزاجی شامل ہو جاۓ تو انسان ہمیشہ دوسروں سے بہت آگے نکل جاتا ہے. مگر ابھی یہ کہانی ختم نہیں ہوئی. کچھوا شکست کے بعد بہت افسردہ ہو جاتا ہے. اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ دوڑ کے میدان میں کبھی خرگوش سے نہیں جیت سکتا, مگر وہ مایوس ہونے کی بجاۓ غوروفکر کرتا ہے اور ایک ایسا میدان دریافت کرتا ہے جہاں اس کی فتح یقینی ہوتی ہے. اس کے بعد دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے. اس دفعہ خرگوش اس عزم کے ساتھ بھاگتا ہے کہ وہہدف سے پہلے ہر گز نہیں رکے گا مگر دوڑتے دوڑتے اچانک اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سامنے دریا آ گیا ہے. 

وہ پریشان ہو کر دریا کے کنارے کھڑا ہو جاتا ہے. اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ دریا کیسے عبور کیا جائے. بہت دیر گزر جاتی ہے اور آخر کار کچھوا آہستہ آہستہ وہاں پہنچتا ہے اور اطمینان کے ساتھ تیر کر دریا پار کر لیتا ہے اور پھر ہدف تک پہنچ جاتا ہے. یوں خرگوش کو مستقل مزاجی اور اعلی صلاحیت کے باوجود شکست ہو جاتی ہے. انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ غوروفکر کی صلاحیت کو استعمال کر کے اپنی کوئی ایسی خوبی اور مخالف کی کوئی ایسی خامی اور حالات و ماحول کا کوئی ایسا مددگار عنصر تلاش کرنا چاہیے جو اسے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھا دے. 

اللہ تعالیٰ نے لازماََ ایسی کوئی نہ کوئی چیز رکھی ہوتی ہے. شرط یہ ہے کہ انسان اسے تلاش کرے تا ہم ابھی یہ کہانی ختم نہیں ہوئی ایک روز اس علاقے میں کچھ شکاری آ جاتے ہیں. کچھوے اور خرگوش دونوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے. خرگوش کے پیچھے شکاری اور آگے پانی ہوتا ہے جب کہ کچھوے کے لئے پانی تک پہنچنے کا وقت بھی نہیں ہوتا. چناں چہ دونوں اپنے اختلافات ختم کر کے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں. خرگوش کچھوے کو اپنے اوپر 
اٹھا کر دوڑتا ہے. یہاں تک کہ وہ دریا کے کنارے پہنچ جاتا ہے. 

یہاں سے کچھوا اسے اپنے اوپر بٹھا کر دریا پار کرا دیتا ہے, پھر خرگوش کچھوے کو اپنے اوپر بٹھا لیتا ہے دوڑنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ دونوں خطرے کی زد سے نکل جاتے ہیں. یہ آخری حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ مل کر کام کرنا سب سے اچھا طریقہ ہے. اس میں سب کی جیت ہے مگر اس کیلئے انسان کو اپنی انا اور بڑائی کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ 

Post a Comment

3 Comments

  1. I think they should add this at the whole to our course books instead of the first part only💜

    ReplyDelete

You will be replied with in 1 hour