دل مضطر نہ کر مجھے یوں دربدر
نہ درد دے ,نہ چوٹ کھا
تو کچھ تو میرا خیال کر
نہ اس قدر ملال کر
میرا چارہ گر ہے نالاں نالاں
میں دریدہ دامن جاؤں کہاں
نہ تیرے پاس سکون ہے
نہ تجھ میں کوئی قرار ہے
دل مضطر تو یہ بتا
یہ کون تجھ میں بیمار ہے
یہ شام غم ,یہ صحن شب
اور تنہائی کی محفلیں
نہ یوں بڑھا , نہ یوں سجا
اسے بھول جا, اسے بھول جا
کیوں پھر رہا ہے دشت میں
کیوں راکھ اپنی اڑا رہا ہے
یہ کیسے زخم ہیں جا بجا
جو روح میری پہ لگا رہا ہے
شب ہجر میں یہ جو حال ہے
تو یہ کس نظر کا کمال ہے
دل مضطر,
میری چارہ گر سے یہ عرض کر
وہ کوئی ایسا خیال دے
جو دل سے درد نکال دے
0 Comments
You will be replied with in 1 hour