Subscribe Us

اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے


 فاطمہ! تم نے یہ سبز شرٹ کہاں سے لی ہے؟، مریم نے کمرے میں آتے ہی پوچھا سلوائی ہے تمہیں تو معلوم ہے نہ 14 اگست کیلئے ہر دکان پر سبز کپڑے آ گئے ہیں لیکن بہت مہنگے ہی، فاطمہ نے جواب دیا. ویسے ایک بات ہے جشن آزادی پر ہم دونوں سے زیادہ خوبصورت کپڑے کسی کے نہیں ہوتے، مریم نے ہنستے ہوئے جواب دیا، یار یہی تو دن ہے سبز کپڑے پہننے کا .........دور کسی نے یہ سن کر سرد آہ بھرییہ ریحان اور جنید ابھی تک پٹاخے لے کر نہیں آئے، فاطمہ نے بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہا. "لو آ گئے" مریم بولی. جنید نے پٹاخوں کا ڈبہ رکھتے ہوئے کہا ڈھیر سارے پٹاخے لائے ہیں ہم پورے محلے میں اتنے پٹاخے کسی کے پاس نہیں ہیں .وہاں مارکیٹ میں ارسلان ملا تھا کہ رہا تھا کے کیا فضول کام کرنے جا رہے ہو بیچارہ یوم آزادی کو بھی انجوائے نہیں کرتا سب چلتے چلتے گلی کے آخر میں موجود میدان میں آ گئے پورے محلے نے پٹاخے یہاں ہی چلانے تھے میدان سبز اور سفید جھنڈیوں سے مزین تھا پاکستان زندہ باد کے پوسٹر ہر جگہ لگے ہوئے تھے ون ویلنگ کیلئے بھی ٹریک بنایا گیا تھا ریحان اور جنید نے پٹاخے بچھا کر آگ لگائی تو دھویں کے بادل اڑنے لگے روشنی سے ماحول جگ مگ اٹھا ........دور کوئی کھڑا کھانس رہا تھا ارے یہ کون کھانس رہا ہے مریم نے پوچھا فاطمہ بھی پریشان ہو گئی کسی بیچارے کو بہت سخت کھانسی لگی ہے اللہ جانے کون ہے جنید تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا کہنے لگا چلو چلو اور پٹاخے لے آتے ہیں پٹاخے ختم ہو گے تو آج کا تو دن ہی زائے ہو جائے گا ایک ہی تو دن ہوتا ہے پٹاخے چلانے کا ریحان نے چونک کر کہا جنید تم نے موٹرسائیکل کا سائلینسر تو نکل دیا تھا ناں ہاں ہاں یار خوب مزے کریں گے سب میدان سے نکلے تو ایک شخص کھانستا ہوا نظر آیا اس کا حلیہ عجیب تھا لگتا تھا جیسے سدا کا بیمار ہے سب اس کو حیرانی سے تکنے لگے اس کی خالی آنکھوں میں نمی آ گئی اور وہ چلتا ہوا میدان میں چلا گیابسم اللہ بسم اللہ ۔مخلص صاحب نے اسے سہارا دیا تھا۔ صاحب کیا ہوا ہے  آپ کو ؟ خاصے کمزور اور بیمار لگ رہے ہیں۔ ویسے آپ ہیں کون؟ یہ بات سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ایسے لگا جیسے اس جملے نے اس پر غم کے پہاڑ توڑ دئے ہوں آخر وہ بول پڑا۔"میں ارے آپ نے بھی مجھے نہیں پہچانا ارے میں آپ کے ہی ہاتھوں میں پلا بڑھا ہوں یاد کریں وہ دن جب آپ میرے لئے تڑپا کرتے تھے مجھے پانے کے لئے بے تاب مجھے ہی اپنے ہر مسئلے کا حل سمجھتے تھے میں تھا آپ کے تمام مسائل کا حل۔پناہ گاہ ہوں میں آپ سب کی ۔ مگر میری یہ حالت دیکھ کر آپ بھی مجھے نہ پہچان پائے ۔ خیر میں اپنا تعارف خود ہی کرائے دیتا ہوں۔میں وہ ہوں جس کے احترام میں خوشیاں مناتے ہوئے میری جوان نسل مجھ ہی کو بھول گئی۔میں وہ ہوں جس کے احترام میں منائی گئی خوشیاں آج مجھے ہی نقصان دے رہی ہیں۔میں وہ ہوں جو آج محض سیر و تفریح کرنے کے لئے رہ گیا ہوں۔میں۔میں پاکستان ہوں۔مخلص صاحب کی آنکھیں بھی نم ہوگئی ۔مکر اانہوں نے اپنی آنکھوں کی نمی کو جذب کرتے ہوئے کہا ۔ مگر آپ اتنے رنجیدہ کیوں ہیں کیوں اپنی نوجوان نسل سے اتنے خائف ہیں؟جانتا ہوں کہ میری جوان نسل مجھ سے بہت محبت کرتی ہے ۔بہت جذباتی ہے میری معاملے میں۔مخلص۔صاحب بولے ہاں یہ توبسچ ہے پھر آپ۔کو کیا شکایت ہے؟یہ ہی تو شکایت ہے کہ اس کے اظہار محبت میں میرے لئے کوئی بہتری کوئی فائدہ کوئی ترقی نہیں بککہ اکثر تو ان کی اظہار محبت اس قدر شدید اور بہت غلط ہوتی ہے کہ میں اور میری عوام نقصان کی زد میں آجاتے ہیں۔اسی دوران ریحان سب کے ہمراہ پہنچا اور کہا۔"وآؤ بھئ مزہ آگیا  آخر ہم ہی جیتے ہیں پٹاخے چلانے میں۔  جنید فوراً بولا ۔اور معاذ کی ٹیم کے تو پٹاخے ہی نہیں چلے ۔مریم نے افسردہ ہو کر کہا ۔ اور بیچارے فیصل کی تو بائیک ہی الٹ گئی بہت چوٹیں آئی ہیں اسے۔اچانک جنید کی نزر پاکستان پر پڑی تو اس نے کہا ۔ارے یہ تو وہی صاحب ہیں جنہیں شدید کھانسی لگی ہوئی تھیہاں بیٹا یہ پاکستان ہیں جن کے نام پر تم لوگ ابھی تفریح کر کے آرہے ہو ۔۔انہیں تم لوگوں سے بہت شکایات ہیں۔مخلص صاحب نے کہا تو ریحان جیسے پھٹ پڑا ۔ شکایت؟ کیسی شکایت؟ ہم تو پاکستان سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ پاکستان نے آہ بھری مگر تم لوگوں کی حب الوطنی میرے لئے فائدہ مند نہیں بلکہ کبھی کبھار تو کافی حد تک نقصآن دہ ہے۔ جنید بولا نہیں ہر گز نہیں ایسا ممکن نہیں ہم تو جشن اتنے پر امن طریقے سے مناتے ہیں سبز کپڑے پہنتے ہیں , جھنڈیاں لہراتے ہیں موٹرسائیکلوں پر آپ کی جھنڈیاں لیے آپ کی سڑکوں پر آپ سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں ریحان نے تائید کی ہاں ہمارے پٹاخوں سے کوئی نقصان نہیں کسی کو کوئی تکلیف نہیں۔پاکستان نے حیرانی سے کہا ۔نقصان نہیں پہنچتا ۔ارے میرے بچوں یہ جو کھانسی تم دیکھ رہے ہو ۔ یہ تم جیسی نوجوان نسل کی بدولت ہے ہر سال 14 اگست پر چلائے جانے والے بےجا پٹاخے میری فضا آلودہ کردیتے ہیںمیں تو کھانسی کا مریض ہی بن کر رہ گیا ہوں ۔ اور یہ جو اس دن سائیلینسر نکال کر چھاننا کیا خیال ہے مجھے خوشی دیتا ہے ہر گز نہیں یہ تو میرا چین و سکون چھین لیتآ ہے ۔اس تقریر نے سب کے دل موہ لئے مریم بولی ۔ آپ کی بات میں وزن تو ہے پھر آپ ہی بتائیں کہ ہم اپنی محبت کا اظہعر کیسے کریں؟فاطمہ نے مریم کی بات کی تائید کی اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بولی اچھا سبز کپڑے پہننے میں تو کوئی نقصان نہیں ۔ پاکستان نے کہا کہ نہیں سبز کپڑے پہننے میں کوئی نقصان نہیں بلکہ سبز رنگ تو میری پہچان ہے مگر آپیہ رنگ پہن کر اس کا حق ازا کرنا تو بھول ہی جاتے ہیں۔ پاکستان کی یہ بات سب کی۔سمجھ سے باہر تھی۔ بھلا رنگ کا بھی کوئیحق ہوتا ہے ۔ مخلص صصاحب نے ان کے چہروں پرنمایاں حیرانی دیکھ کر کہا آپ انہیں تھوڑا تفصیل سے سمجھائیں ۔تو پاکستان نے کچھ یوں بیان کیا

یہ جوان نسل مصر ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، یہ سوچو کہ فائدہ کیا پہنچایا ؟ کیا آپ مجھے 14 اگست کی مناسبت سے کوئی ایسا کام گنوا سکتے ہیں جو یوم آزادی کی وجہ سے مجھے فائدہ دے گیا ہو۔ کوئی ایک کام ہی بتادیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ سسک پڑا۔ کیا آپ کے صرف سبز کپڑے پہننے سے مجھے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ یس کی آواز میدان میں گونجنے لگی اور میدان میں موجود باقی تمام جوانوں کے دلوں میں اترنے لگی۔ وہ یپنے کئے پر شرم سار تھے مخلص صاحب نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا"کیا آپ کچھ اور کہنا چاہیں گے؟"پاکستان نے نم آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہئے کہا۔

"یہ پیسا جو میری جوان نسل ہر سال پٹاخے چلانے میں لگا دیتی ہے اگر یہ پیسا میری عوام کو ملے توان کے بہت کام آسکتا ہے ۔میرا سبزہ میری ہریالی ختم ہوتی جارہی ہے۔جسی کو فکر نہیں۔ میں دن بدن گندگی کا ڈھیر بنتا جارہا ہوں ،کسی کو دکھائی نہیں دیتا ۔میں اپنا کون کون سا زخم کھول کر دکھاؤں آپ کو میں کتنا دکھی ہوں میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔"یہ کہتے ھوئے پاکستان کی تکلیف کی شدت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔

ہر طرف خاموشی چھاگئی۔نوجوانوں کو ان کی غلطے کا احساس ہوگیا تھا۔مخلص صاحب نے خاموشی توڑی اور بچوں سے مخاطب ہوئے کہا کیا تم لوگ بھول گئے ہو کہ یہ ملک کتنا قیمتی ہے اس ملک کے حصول کے لئے لاکھوں مسلمان بھوکے پیاسے۔شدید تکلیف میں تڑپتے ہوئے شہید ہو گئے۔یہ ملک ہمارے بلک کے بزرگوں کی بے پناہ قربانیوں کا ثمر ہے۔ اس تقریر نے سب بچوں کو نئی راہ دکھادی۔ان کو احساس ہو گیا تھا کہ کیسے وہ وطن سے محبت کی آڑ میں صرف تفریح کررہے تھے۔اور یپنے ملک کو بربادی کی ترف دھکیل رہے تھے ۔یس ملک کی بنیادیں ان کے شہداءکے خون سے رنگی ہیں۔روز قیامت کیا منہ دکھائیں گے ان بزرگوں کو؟ ہمارا ملک ان تھک جدوجہد سے حاصل ہوا ہے۔اس بات کی دنیا گواہ ہے اور ہم اپنا ملک اپنے ہی ریوں اور غلط عمل سے برباد کررہے ہیں۔آخر فاطپہ نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا "آپ بلکل صحیح فرمارہے ہیں۔ہمارا جذبہ سچا مگر طریقہ نا مناسب ہے۔جس جذبے کے تحت پاکستان حاصل کیا گیا ہم اسے نا سمجھ سکے ۔ہم غلط تھے ہم غلط ہیں۔لیکن آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔پھر تمام نوجوانوں نے یک زبان ہوکر کہا۔"ہم پاکستان کو ان تمام تکلیفوں سے نکالیں گے۔"


Post a Comment

4 Comments

You will be replied with in 1 hour